درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے



درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر ، کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے

تعلقات ابھی اِس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ ـــ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے


وہ اَب ملے بھی تو ملتا ہے اِس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے

فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی اُن کی صدا گزرتی ہے

یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں اِنتہا گزرتی ہے

بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں ، مــــگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے

نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے۔۔۔!!

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے