کبھی صحرا تھا اور اب ایک ذرّہ رہ گیا ہُوں



کبھی صحرا تھا اور اب ایک ذرّہ رہ گیا ہُوں
مگر مَیں پھر بھی دریاؤں سے اچّھا رہ گیا ہُوں
کسی نے دیکھتے ہی دیکھتے نظریں بدل لیں
جبھی تو بنتے بنتے مَیں ادھورا رہ گیا ہُوں
مِٹا جاتا ہُوں لوحِ خاک سے ' پر دُنیا والو !
مجھے اُتنا تو پہچانو کہ جتنا رہ گیا ہُوں
پلٹ کر پھر نہیں آئے وہ دن ، خوش بُو بھرے دن
مَیں آخر سانس تک اُن کو بُلاتا رہ گیا ہُوں
مِری ہیئت کذائی ہی نہ تھی بِھِک منگوں جیسی
سو مَیں اُس در پہ بھی بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا ہُوں
مجھے دریا نے پانچوں وقت دھویا ہے' مگر مَیں
سپوتِ خاک تھا ' میلا کچیلا رہ گیا ہُوں
مِرے اندر کے پنچھی چہچہاتے ہی نہیں اب
مجھے لگتا ہے جیسے خالی پنجرہ رہ گیا ہُوں
زمانے کی ہَوا مجھ پر نظر گاڑے ہُوئے ہے
سرِ محراب اک مَیں ہی تو جلتا رہ گیا ہُوں
مِرے سائے میں بیٹھے ہیں طیورِ شوق اب تک
شجر سے گھٹ کے گرچہ شاخِ تنہا رہ گیا ہُوں
بس اِتنا رہ گیا ہے روشنی سے ربط ' یعنی
کبھی مَیں چاند تھا ' اب صرف ہالہ رہ گیا ہُوں
جنہیں جینے کی دُھن تھی تیری بستی چھوڑ بیٹھے
یہاں اب مَیں ہی تجھ پر مرنے والا رہ گیا ہُوں

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے